
حال ہی میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاقوں میں آنے والے شدید ژالہ باری نے نہ صرف موسم کو ٹھنڈا کیا بلکہ گاڑیوں کے مالکان کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ ژالہ باری کی وجہ سے سینکڑوں گاڑیوں کی ونڈ اسکرینز، چھتیں اور آئینے ٹوٹ گئے، جس کے نتیجے میں آٹو گلاس کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا۔ مقامی مارکیٹوں میں ونڈ اسکرینز کی قلت پیدا ہو گئی، اور قیمتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹس کے مطابق، ایک عام ونڈ اسکرین کی قیمت جو پہلے 15,000 روپے تھی، اب 35,000 روپے تک جا پہنچی ہے، جبکہ چھوٹے شیشوں کی قیمتیں 100 سے 200 روپے سے بڑھ کر 1,000 روپے تک پہنچ گئی ہیں۔ مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے راولپنڈی کے کئی دکانداروں نے نئے آرڈر لینا بند کر دیا، کیونکہ ان کے پاس اسٹاک ختم ہو چکا ہے۔
یہ صورتحال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ قدرتی آفات نہ صرف انسانی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ معاشی طور پر بھی بڑے پیمانے پر نقصانات کا باعث بنتی ہیں۔ گاڑیوں کے مالکان جو پہلے ہی مرمت کے اخراجات سے پریشان تھے، اب ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مزید مالی بوجھ تلے دب گئے ہیں۔
کیا دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے
اگر ہم دنیا بھر سے ایک برعکس مثال دیکھیں تو 2017 میں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں آنے والے ہریکن ہاروی کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ہریکن ہاروی نے ہیوسٹن میں شدید سیلاب کی صورتحال پیدا کی، جس سے لاکھوں گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ لیکن اس صورتحال میں امریکی حکومت اور نجی کمپنیوں نے مل کر گاڑیوں کے مالکان کی مدد کی۔ انشورنس کمپنیوں نے فوری طور پر کلیمز کے عمل کو تیز کیا، اور بہت سی آٹوموبائل کمپنیوں نے متاثرہ افراد کے لیے رعایتی نرخوں پر گاڑیاں اور پرزے فراہم کیے۔ اس کے علاوہ، مقامی سطح پر امدادی کیمپ لگائے گئے جہاں لوگوں کو مفت مرمت کی سہولیات دی گئیں۔ اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں قدرتی آفات نقصانات کا باعث بنتی ہیں، وہیں منظم حکومتی اور کمیونٹی اقدامات سے ان نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اور آخر میں
پاکستان میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی حالیہ صورتحال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاری بہت ضروری ہے۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے متاثرین کو ریلیف مل سکے، تو شہریوں پر پڑنے والا مالی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر کی مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ منظم منصوبہ بندی اور تعاون سے مشکل حالات میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔