
قطیف، سعودی عرب: سعودی عرب کی عدالت نے 2010 میں 5 بھارتی مزدوروں کے وحشیانہ قتل کے الزام میں تین سعودی شہریوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ سعودی گزٹ کے مطابق، ملزمان کے نام جاسم بن جاسم بن حسان المطوع، عمار بن یوسف بن علی الدحیم، اور مرتضیٰ بن ہاشم بن محمد الموسوی ہیں۔ ان تینوں کو تحقیقات کے بعد قتل کا ماسٹر مائنڈ اور اس کے ساتھیوں کے طور پر شناخت کیا گیا۔
واقعے کی تفصیلات
یہ دل دہلا دینے والا واقعہ 2010 میں قطیف کے قریب واقع صفا نامی ایک فارم پر پیش آیا۔ ملزمان نے پانچ بھارتی مزدوروں کو قتل کیا اور ان کی لاشوں کو فارم پر دفن کر دیا۔ ابتدائی طور پر یہ خیال کیا گیا کہ لاشیں شاید جانوروں کی ہوں گی، لیکن ایک سعودی شہری، ابی ہبیب، نے جب فارم پر آبپاشی کے نظام کے لیے کھدائی کی تو اسے ہڈیوں کے ڈھانچے ملے۔ اس نے فوراً پولیس کو اطلاع دی، جس کے بعد تحقیقات شروع ہوئیں۔
جنسی ہراسانی کا معاملہ
ملزم جاسم بن جاسم بن حسان المطوع کے ایک دوست کے بیان کے مطابق، وہ اور اس کے ساتھی اس وقت گاڑی میں جا رہے تھے جب انہیں اپنے دوست کا فون آیا۔ دوست نے بتایا کہ ملزم نے اپنے اسپانسر کی بیٹی اور کچھ دیگر خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کی تھی۔ اس جرم کی سزا کے طور پر، ملزمان نے پانچ بھارتی مزدوروں کو قتل کر دیا۔
زندہ دفن کرنے کا انکشاف
تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ پانچوں مزدوروں کو ایک یا دو نہیں، بلکہ پانچوں کے پانچ زندہ دفن کیے گئے تھے۔ پولیس نے جائے وقوع سے ملنے والی لاشوں کے ہاتھ پاؤں رسی سے بندھے ہوئے پائے، جبکہ ان کے منہ میں روئی بھری گئی تھی اور اسے ڈکٹ ٹیپ سے بند کیا گیا تھا۔ یہ ایک واضح قتل کا کیس تھا۔ پولیس نے اقامت کے ذریعے ان پانچوں ایکسپیٹ مزدوروں کی شناخت کی، جو اس فارم پر کام کرتے تھے۔
عدالتی فیصلہ
سعودی عدالت نے شواہد اور بیانات کی روشنی میں تینوں ملزمان کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی۔ سعودی گزٹ کے مطابق، ان تینوں کو سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا ہے۔
ابی ہبیب کی کہانی
ابی ہبیب، جس نے اس واقعے کو بے نقاب کیا، نے بتایا کہ اسے کبھی گمان بھی نہیں تھا کہ وہ انسانوں کی لاشیں دریافت کرے گا۔ اس کا خیال تھا کہ شاید کوئی جنگلی جانور ہو، لیکن جب اس نے ہڈیوں کو دیکھا تو اسے فوراً احساس ہوا کہ یہ کوئی سنگین معاملہ ہے۔ اس نے پولیس کو اطلاع دی، جس کے بعد یہ کیس کھل کر سامنے آیا۔
معاشرتی ردعمل
اس واقعے نے سعودی عرب اور بھارت دونوں میں شدید غم و غصے کو جنم دیا۔ ایکسپیٹ مزدوروں کے حقوق اور ان کی حفاظت پر سوالات اٹھائے گئے۔ سعودی حکام نے اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا۔
آخر میں
یہ واقعہ ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ انسانی جان کی قدر ہر حال میں مقدم ہے۔ سعودی عرب کی عدالتوں نے اس کیس میں تیزی سے فیصلہ سنا کر انصاف کو یقینی بنایا۔ تاہم، یہ واقعہ معاشرے کے لیے ایک عبرتناک سبق بھی ہے کہ ہر شخص کے حقوق کا احترام کیا جائے۔